نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

داستان لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

شفا اللہ روکھڑی کو میں پیار سے خان اعظم کہا کرتا تھا

اے میرے صاحب شفا اللہ روکھڑی کو میں پیار سے خان اعظم کہا کرتا تھا اور وہ شرما دیتے تھے مسکراہٹ ان کی ایسی جیسے کسی ٹہنی پہ کھلتے گلاب کی پہلی انگڑائی مسکراتے رہنا اور بات بات پہ مسکرا دینا شاید ان کی فطرت میں کہیں گندھا ہوا تھا غصہ بھی کرتے تھے مگر وہ بھی مسکراتے ہوئے بہت سے لوگ ان کے حال سے واقف ہیں مگر ان کے ماضی سے واقفیت نہیں رکھتے میرا اور ان کا تعلق برسوں پہلے سے تھا جب انہوں نے گائیکی کا آغاز کیا ان کے اس سفر کی داستان بہت دلچسپ بھی اور مشقت سے بھری ہوئی بھی انہوں نے ابتداء میں اس وقت اپنے ہونے کا احساس دلایا جب میانوالی میں عطاء اللہ عیسٰی خیلوی محمد شفیع وتہ خیلوی اور ایوب نیازی اپنا سکہ جما چکے تھے اور ادھر جھنگ سے منصور ملنگی طالب حسین درد اور اللہ دتہ لونے والا بھی چمک رہے تھے شفا اللہ روکھڑی نے اس مشکل دور میں اوپر اٹھنے کا فیصلہ کیا اور ان کے درمیان اپنی ابتدائی جگہ بنائی میں نے گیت نگاری کا باقاعدہ آغاز ان کے ساتھ کیا اور ان کیلے گیت لکھے کمپوزیشن کی................... ہم کیسے ملے کیسے ایک دوسرے کے دوست بنے یہ ایک لمبی داستان ہے یہ بھی ایک واقعہ ہے انہوں نے بطور گلوکار ...