نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

میرا میانوالی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کی دو پوسٹس خالی

میرا میانوالی ------------------------ کیا خبرتھی کہ یہ ساتویں کلاس کا بچہ جو آج روتا ہوا, عیسی خٰیل چھوڑ کر جا رہا ہے انگلش کا لیکچرر بن کر 20 / 21 سال بعد پھر عیسی خیل آجائے گا ، اور پورے 5 سال یہاں رہے گا - لیکچرر بننے کے لیے تو میں نے محنت کی تھی - ایم اے انگلش کیا تھا ، مگر عیسی خیل آنے کا تو میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا - ہوا یہ کہ 1975 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے میانوالی کے دو نوجوان انگلش کے لیکچرر کی پوسٹس کے لیے منتخب ہوئے ، ایک نوجوان تھا غلام سرور خان نیازی ، دوسرا منورعلی ملک - اس وقت گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کی دو پوسٹس خالی تھیں - ڈائریکٹر صاحب نے ان پوسٹس پر ہم دونوں کے تقرر کے آرڈرز جاری کر دیئے - مگر ابھی آرڈرز ہمیں بھیجے ہی نہ تھے کہ کمشنر صاحب نے فون پر ڈائریکٹر صاحب سے کہا گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں انگلش کے لیکچرر کا تقرر فوری طور پہ کیا جائے ، کیونکہ وہاں انگلش کا کوئی لیکچرر نہیں ہے- لڑکوں نے آج احتجاج کے طور پہ بنوں روڈ بند کیئے رکھی- ہم نے ان سے فورا لیکچرر بھجوانے کا وعدہ کر کے ہڑتال ختم کروائی ہے - ڈائریکٹر صاحب نے دیکھا کہ جن دو نئے لیکچررز کے تقرر ک...

میرے والد گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں ھیڈماسٹر تھے

میرا میانوالی ---------------------- یادیں --------- جب میرے والد محترم ملک محمد اکبر علی گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں ھیڈماسٹر تھے ، میں اس وقت ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا - والد صاحب نے مجھے بھی اسی سکول میں داخل کروا دیا - میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی بھی اس سکول میں انگلش ٹیچرتھے - گھر کے باقی لوگ داؤدخیل ہی میں رہتے تھے - صرف ہم تینوں مین بازار عیسی خیل کے قریب حکیم عمر خان کے مکان میں رہتے تھے - سکول کے ایک ملازم چاچا محمد خان ہمارا کھانا وغیرہ بناتے تھے -  والد صاحب کو شکار کا بہت شوق تھا - اس شوق کی تکمیل کے لیے انہوں نے اعلی قسم کی ڈبل بیرل بندوق رکھی ہوئی تھی - سکول کے عربی ماسٹر شیر محمد خان صاحب ، المعروف مولوی عربی بھی شکار کے بہت شوقین تھے - بہت زندہ دل انسان تھے - اس موسم میں ایک دن والد صاحب نے مولوی صاحب کو مرغابی کے شکار کے لیے دریا کے کنارے جانے کا کہا تو مولوی صاحب نے ہنس کر کہا “ سر ، مرغابی کے شکار سے پہلے دریا کے کنارے ایک فائر صاحب علی قریشی کو مارنا پڑے گا - پھر اس کے بعد دوسرے دن شکار ممکن ھوگا ، کیونکہ یہ اللہ کا بندہ فجر کے فورا بعد بندوق لے کر دری...

میرا میانوالی تحریر پروفیسر منور علی ملک

میرا میانوالی --------------------------- کیا اچھا دور تھا --------- شوگر، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور کینسر وغیرہ کا نام و نشاں تک نہ تھا - اکا دکا لوگوں کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوتا جو موت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ اس زمانے میں ٹی بی ایک لا علاج مرض تھا - لیکن یہ بھی بہت کم ، بمشکل ایک فیصد لوگوں کو لاحق ہوتا تھا -  اس موسم میں ملیریا ہر گھر میں وارد ہوتا تھا - عام لوگ اسے موسمی بخار کہتے تھے - بخار اور سردرد کے ساتھ سردی بھی بہت لگتی تھی - یہ کیفیت دوتین دن رہتی تھی - ملیریا سے کسی کو مرتے تو نہ دیکھا، انسان اچھا خاصا خجل خوار ضرور ہوتا تھا - کچھ کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا تھا - مائیں منت ترلے کر کے کچھ نہ کچھ بہرحال کھلا پلا دیتی تھیں -  داؤدخیل کے سرکاری ہسپتال سے پانی کے رنگ کی دوا (کونین مکسچر) اور اے پی سی کی پڑیاں ملتی تھیں - (ایک اے پی سی آج کل بہت مشہور ہے ، مگر وہ ملیریا کے علاج کے لیے نہیں ) - ہسپتال سے جو اے پی سی ملتی تھی وہ غیر سیاسی اے پی سی تھی جو بخار اور جسم کے درد کا علاج ہوا کرتی تھی - اس کے ساتھ لال رنگ کا شربت بھی ملتا تھا ، ہاضمے کا یہ شربت پہ...