" منوراں کی کہانی ! بیٹے کی زباںی !"
منور خاتون المعروف منوراں
میری ماں ہیں۔۔ میری جاں ہیں۔۔
آٹھ بچوں کی ماں !
سب بچوں کو
کمال پیار کرنے والی لیکن
ان کا پلیٹھی کا پتر ہونے کی وجہ سے
ہمیشہ سے
میں ہی ان کا محبوب رہا ہوں۔۔
یہ عورت
کبھی لائی پر گندم کاٹتی تو
کبھی گندم کی فصل شفٹ ہونے کے بعد
اپنے بچوں کے ساتھ مل کر
گندم کے گرے ہوئے سٹے(خوشے) چنا کرتی۔۔
جب
منگی کی فصل کھلواڑوں پر پہنچ جاتی تو
یہ خاتون
کھیت میں گری منگی کی پھلیاں بھی چنا کرتی۔۔
کبھی کسی کی گائے
کبھی کسی کی بھینس
ادھ پر رکھتی تو
کبھی رشتہ داروں کے ساتھ مانڑیاں لتڑواتی۔۔
کبھی
ادھ پر رکھے مویشیوں کے لیے گھاس کے
بڑے بڑے گڈے اٹھا کر لاتی۔۔
کبھی پڑوس میں
پرائمری سکول میں
پانچویں جماعت کے بورڈ کے امتحانوں کے دوران
چند دن پکوڑے بیچا کرتی۔۔
کبھی مہینوں کی محنت سے
بنائے اوپلے بیچا کرتی تو
کبھی اپنے رشتہ داروں کی شادی پر
کملیانڑی بن کر کام کیا کرتی
اور اجرت لیا کرتی۔۔
اور یہ سب
اس لیے کرتی کہ
وہ ایک بہادر عورت تھی۔۔
وہ ایک خوددار بیوی تھی۔۔
وہ ایک پرجوش ماں تھی۔۔
وہ لڑنا جانتی تھی۔۔
وہ کسی صورت
غربت سے
ہارنا نہیں چاہتی تھی۔۔
وہ اپنے شوہر
اور اپنے بچوں کے لیے
کئی سال تک
غربت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
تن تنہا مسلسل لڑتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر
وفا کی اس تصویر کو
اللہ عزوجل نے فاتح قرار دے دیا۔۔
وہی منوراں
جو گندم کے سٹے چنا کرتی تھی
جو منگی کی پھلیاں چنا کرتی تھی
جو اوپلے بیچا کرتی تھی
آج
وہی منوراں
سرگودھا ڈویژن کے
معتبر ترین ادارے کی
ڈائریکٹر بنی بیٹھی ہیں، ماشاءاللہ۔۔
آئیں ۔۔
اپنی اپنی ماں کا
اپنی اپنی منوراں کا
خوبصورت کل بن جائیں۔۔
----- دی ریڈر کالج میانوالی -----
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
منور خاتون المعروف منوراں
میری ماں ہیں۔۔ میری جاں ہیں۔۔
آٹھ بچوں کی ماں !
سب بچوں کو
کمال پیار کرنے والی لیکن
ان کا پلیٹھی کا پتر ہونے کی وجہ سے
ہمیشہ سے
میں ہی ان کا محبوب رہا ہوں۔۔
یہ عورت
کبھی لائی پر گندم کاٹتی تو
کبھی گندم کی فصل شفٹ ہونے کے بعد
اپنے بچوں کے ساتھ مل کر
گندم کے گرے ہوئے سٹے(خوشے) چنا کرتی۔۔
جب
منگی کی فصل کھلواڑوں پر پہنچ جاتی تو
یہ خاتون
کھیت میں گری منگی کی پھلیاں بھی چنا کرتی۔۔
کبھی کسی کی گائے
کبھی کسی کی بھینس
ادھ پر رکھتی تو
کبھی رشتہ داروں کے ساتھ مانڑیاں لتڑواتی۔۔
کبھی
ادھ پر رکھے مویشیوں کے لیے گھاس کے
بڑے بڑے گڈے اٹھا کر لاتی۔۔
کبھی پڑوس میں
پرائمری سکول میں
پانچویں جماعت کے بورڈ کے امتحانوں کے دوران
چند دن پکوڑے بیچا کرتی۔۔
کبھی مہینوں کی محنت سے
بنائے اوپلے بیچا کرتی تو
کبھی اپنے رشتہ داروں کی شادی پر
کملیانڑی بن کر کام کیا کرتی
اور اجرت لیا کرتی۔۔
اور یہ سب
اس لیے کرتی کہ
وہ ایک بہادر عورت تھی۔۔
وہ ایک خوددار بیوی تھی۔۔
وہ ایک پرجوش ماں تھی۔۔
وہ لڑنا جانتی تھی۔۔
وہ کسی صورت
غربت سے
ہارنا نہیں چاہتی تھی۔۔
وہ اپنے شوہر
اور اپنے بچوں کے لیے
کئی سال تک
غربت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
تن تنہا مسلسل لڑتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر
وفا کی اس تصویر کو
اللہ عزوجل نے فاتح قرار دے دیا۔۔
وہی منوراں
جو گندم کے سٹے چنا کرتی تھی
جو منگی کی پھلیاں چنا کرتی تھی
جو اوپلے بیچا کرتی تھی
آج
وہی منوراں
سرگودھا ڈویژن کے
معتبر ترین ادارے کی
ڈائریکٹر بنی بیٹھی ہیں، ماشاءاللہ۔۔
آئیں ۔۔
اپنی اپنی ماں کا
اپنی اپنی منوراں کا
خوبصورت کل بن جائیں۔۔
----- دی ریڈر کالج میانوالی -----
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں