پہلے میانوالی کی سیاست کے بے تاج بادشاہ گل حمید خان روکھڑی کے انتقال کی خبر آئی تو رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔۔۔اُن کے جنازے میں شرکت کی تو ساتھ ہی اُسی خاندان کے ایک اور روشن چراغ شفاء اللہ خان روکھڑی کے بجھنے کی خبر نے سینہ چِیر دیا۔۔۔اِن دونوں شخصیات کا تعلق روکھڑی خاندان سے تھا اور دونوں اپنے عروج پر گئے ،بے شمار لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور اس دنیا کو خیرباد کہ کر اچانک چلے گئے ۔میانوالی کے سیاسی حلقوں میں کہرام مچا تو ثقافتی حلقوں کی جان ہی نکل گئی۔گل حمید خان روکھڑی کے ساتھ چند خوشگوار ملاقاتیں آج بھی ذہن و دل پر نقش ہیں مگر شفاء اللہ روکھڑی کے ساتھ تو ایک عہد بیتا ہوا ہے جو بیان سے باہر ہے ۔محرم سے پہلے مجھے انہوں نے سرائیکی گیت کے لیے بُلوایا تو میں ایک سنجیدہ اور ایک عوامی(چھیڑ چھاڑ والا) گیت لے کر گیا تو انہوں نے سنجیدہ گیت کو پسند کیا ۔کافی دیر گپ شپ ہوتی رہی ۔میں اکثر زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کرتا تھا اور وہ مجھے مزید جینے کی اُمید دلاتا تھا۔سنجیدہ گیت کو پسند کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ گیت میری زندگی کے تار وں سے جُڑا ہے اس لیے اسے ضرور ریکارڈ کروں گا ۔گیت کا ٹریک بھی بن گیا شاید ووکل نہ ہو سکا ۔یہ میرا آخری گیت تھا جو انہوں نے گانا تھا ۔۔گانے کے بول کچھ اسطرح تھے ۔
جِتنا غریب میں آں اُتنا امیر دل ہے ۔۔ ہَر کَئیں دی خیر منگدائے کِتنا فقیر دل ہے۔
بہت دُکھ ہوا آج جب خبر سُنی تو کافی دیر میں،صابر بھریوں ،امیر عبد اللہ خان آف چھدرو ،صابر جنڈانوالہ اور حاجی ظفر نیازی اُن کی کاوشوں اور ریاضتوں کی باتیں کرتے رہے۔دعا ہے کہ خدائے رحیم اُن کی عاقبت سنوارے اور اُن کے شراکت داروں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں