نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

“ہمارا تعلیمی نظام ” سدرہ نسیم

“ہمارا تعلیمی نظام ”


پاکستان میں رہتے ہوۓ تعلیمی نظام کی بات آۓ تو ذہن میں ایک ہی خاکہ بنتا ہے جس میں رٹا سسٹم، تعلیمی نظام کی ناقص پالیسیاں اور منہدم ہوتی شکستہ انتظامیہ نظر آتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی ہیں عرصہ دراز رہے ہیں سو ابھی تک جسمانی آزادی کے باوجود ذہنی آزادی حاصل نہیں کر سکے۔ آج بھی ذہن صدیوں سے انگریزوں کے غلام ہیں ۔ انھی سے مرعوب ہیں ۔ انھی کو مانتے ہیں انھی کو سنتے ہیں۔ اور انھی کے نقش قدم پر چلنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ 
ایک بار بابا سے سوال کیا بابا کون لوگ تھے جنھوں نے ہمیں غلام بنا رکھا تھا کہنے لگے کچھ انگریز تھے جو باہر سے آۓ تھے۔ اپنا اوڑھنا بچھونا اپنی تہذیب ساتھ لاۓ تھے ۔ گھر اپنے تھے دکانیں ان کی تھی۔ بولتے ہم تھے زبانیں ان کی تھی۔ میں نے کہا بابا یہ تو آج بھی ہے گھر اپنے دکانیں ان کی ہیں ارے ہم تو فقط غلام ہیں زبانیں ان کی ہیں۔ انھی کی تہذیب کا راج ہے۔ انھی کی ثقافت کا ناچ ہے۔ بابا کچھ بدلا تو نہیں۔


اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وطن عزیز میں ہمارا سارا سسٹم انگریزی ر مشتمل ہے۔ اپنے بچوں کو انگریزی سکھانا باعث فخر اور قومی زبان سکھانا باعث شرم سمجھتے ہیں۔
ایک تین سالہ بچے کے ناتواں کندھوں پر آکسفورڈ کی مرتب کردہ انگریزی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ اب اگر بچہ وہ نہیں پڑھ پاتا تو وہ نالائق کہلاۓ گا اور اگر بچہ آنکھ کھولتے ہی پاکستانی معاشرے کی ستم ظریفیوں کو ذہن کے دریچوں میں بٹھا لیتا ہے اور رٹے کو اپنا مقصد حیات بنا لیتا ہےتو وہ لائق کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ 


اب یہاں سے امتیازی سلوک شروع ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہن سازی کی بجاۓ ان میں تفاوت برتا جاتا ہے۔ انگریزی نہ بولنے والے بچوں کو جھڑکا جاتا ہے معاشرے سے الگ گردانا جاتا ہے اور یوں اس احساس کمتری کی دوڑ میں ماں باپ بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ شروع سے بچے کو مادری زبان میں کنسیپٹ دینے کی بجاۓ انگریزی زبان میں رٹا لگانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔


یہی سلسلہ سکولز کالجز اور پھر یونیورسٹی لیول تک وسیع ہوتا جاتا ہے۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو مار کر کہیں دفنا دیا جاتا ہے۔جو جتنا روانی سے رٹا لگا رہا ہے اس کو آگے لایا جاتا ہے اس کو نمبروں کی دوڑ میں نمایاں پوزیشن ملتی ہے۔ اسکے سر پر فتح کا تاج پہنایاجاتا ہے اور یوں ایک ذہنی غلام قوم کا سولہ سالہ تعلیمی سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے۔ اب یہاں اس مرحلے پر قوم کو لیڈر کی بجاۓ پرچیاں پڑھنے والے ملتے ہیں۔ تخلیقی اور تعمیری قوم کی بجاۓ لکیر کے فقیر راہنما ملتے ہیں ۔ جن کی اپنی نہ کوئ سوچ ہوتی ہے نہ اپنی کوئ قوت فیصلہ۔ بلکہ انکو جو جب جیسے اور جہاں کی بنیاد پر ملازمتیں ملتی ہیں۔ 


یہی المیہ ہے کہ گیارہ سو میں سے 1090 نمبر لینے کے باوجود کوئ آئن سٹائن کوئ نیوٹن کوئ جابر بن حیان کوئ ابو الہیثم نہیں پیدا ہو رہا ۔نہ ہی کوئ تخلیقی و تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔
اور اس میں بچوں کا قطعا کوئ قصور نہیں ہے۔قصور اس سسٹم کا ہے جو ان کی قابلیتوں کو زندہ دفن کر رہا ہے۔ قصور اس معاشرے کا ہے جو ان کے تخلیقی اذہان کو رٹے کے کنسیپٹ میں بدل رہا ہے۔قصور ان اداروں کا ہے جہاں ان کے بولنے سننے سمجھنے اور سوال کرنے کی حسوں کو مفلوج کر رہا ہے۔ قصور ان ماں باپ کا ہے جو اپنے بچوں کے اڑنے والے پروں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔ 
قصور اس تعلیمی نظام کا ہے جہاں نمبروں کو شخصیت پر ترجیح دی جاتی ہے۔ 
جہاں کسی کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ 
یہی سارے مل کر بچوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔
میری تمام اداروں سے اپیل ہے کہ آپ میں نمبروں کی دوڑ کا مقابلہ کرتے ہوۓ بچوں کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔ 
دنیا کو یہ نہ بتاؤ کہ تمہارا کوئی سٹوڈنٹ نمبر 1 آگیا ہے، نمبر 2 آ گیا ہے یا نمبر 3 آ گیا ہے۔ دنیا کو یہ نہ بتاؤ کہ تمہارے کسی سٹوڈنٹ نے سرگودھا بورڈ ٹاپ کرلیا ہے یا دوسرے نمبر پر آ گیا ہے یا تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
دنیا کو یہ بتاؤ کہ تمہارے کتنے بچوں نے
سوچنا شروع کردیا ہے
اپنی تخلیق کا مقصد سمجھ لیا ہے
سوال اٹھانا شروع کردیا ہے
جستجو شروع کردی ہے
کم نمبرز آنے پر تعلیم کو خیرآباد کہنے کا ارادہ ترک کردیا ہے
استاد کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے
سڑک کا درست استعمال سیکھ لیا ہے
اپنے موبائل سے گندہ مواد ڈیلیٹ کردیا ہے
دوسرے کو دھکے دے کر آگے بڑھنے کی عادت ترک کر دی ہے
کامیاب ڈاکٹر، کامیاب انجنئیر یا کامیاب افسر بننے کی سے پہلے کامیاب انسان بننے کا ارادہ کر لیا ہے
تعلیم کو اپنی ضرورت سمجھنے کی بجائے اپنا فرض سمجھ لیا ہے
اپنے استاد سے سکولوں اور کالجوں میں شودروں اور برہمنوں کی تقسیم پر سوال اٹھانا شروع کردیا ہے
اگر
تمہارے خیال میں نمبر 1، نمبر 2 اور نمبر 3 ہی پاکستان کے ہیرو ہیں تو باقی 10، 50، 100 یا 500 سو کو تم نے کس کھاتے میں ڈالا ہے؟ کیا یہ سب ولن ہیں یا ایکسٹرا؟ ان سب میں وہ چھپی ہوئی صلاحیتیں کون دنیا کو بتائے گا جو صلاحیتیں تہمارے نمبر1، نمبر2 یا نمبر3 میں نہیں ہیں؟


اور یہ ساری باتیں سچ تو ہیں مگر باتیں ہیں رسوائ کی۔
کاش کوئ تو اس سسٹم کے خلاف آواز اٹھاۓ ۔ کاش کوئ مسیحا ادھر بھی دیکھے ۔ 
بذات خود میں کسی بھی زبان کو سیکھنے کے خلاف نہیں ہوں یہ علم ہے اور سیکھنا چاہیے لیکن فوقیت اپنی قومی زبان کو ہی دینی چاہیے ۔ جیسا جیساکہ چین کے صدر نے انگریزی زبان کا مترجم فرہم ہونے پر کہا تھا کہ چین ابھی گونگا نہیں ہوا۔
انھوں نے بھی تو ترقی کی۔ اقوام عالم میں اپنا لوہا منوایا۔ اپنا آپ منوایا۔ ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی صف میں کیسے آۓ ؟ اپنی معیشت کو دنیا کی مضبوط معیشت کیسے بنایا؟ بے پناہ آبادی کے بوجود ترقی کے سنگ میل کیسے عبور کیے۔ صرف اور صرف اپنی قومی زبان پر بھروسہ کرتے ہوۓ۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہوتے ہوۓ۔ انگریزوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے ہوۓ ۔
اور ہم بھی یہ کر سکتے ہیں اگر ہم خودپر بھروسہ کریں۔ اپنے بچوں کو اڑنے کے کےلیے پر دیں سوچنے کے لیے ذہن دیں اور بیج بونے کے لیے زمین فراہم کریں ۔
ضرورت صرف اورصرف سوچنےکی ہے۔




سدرہ نسیم
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس https://sammar12.blogspot.com #blogger #blogging #famousblogger #top10blogger #Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent ‎ #punjab ‎ ‎#mianwalians ‎#Famous www.mianwali.com.pk #میانوالی_ہوم_ٹاؤن #ملک_ثمر_عباس #MalikSammarAbbas #MianwaliHomeTown #MianwaliCity #MianwaliNews #MianwaliUpdate #Mianwali #MianwaliSocialMedia #SocialMediaactivist #Website #YouTuber #trending2020


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نومئی کے واقعہ پر دل بہت ہی رنجیدہ ہے

پنجاب اسمبلی،لاہور31 مئی 2023 • سپیکر پنجاب اسمبلی سردار محمد سبطین خان کی اپنے چیمبر میں میڈیا سے گفتگو • سب سے پہلے پاکستان ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی • نومئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں • سیاسی مسائل کے حل کے لئے گرینڈ ڈائیلاگ اشد ضروری ھیں • پاکستان کا پرچم سر بلند ہے تو ہماری بھی عزت ہے اور اداروں کی بھی۔ • نومئی کے واقعہ پر دل بہت ہی رنجیدہ ہے  • جو کچھ بھی ہوا۔ وہ فرد واحد کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس سے ملک کی بے توقیری ہوئی۔ • فوج ہو یا کوئی اور ادارہ،یہ سب ہمارے اپنے ہیں • میرا اپنا خاندان سپاہی سے لےکر لیفٹیننٹ جنرل تک فوج کا حصہ ہیں۔  • ہمارے خاندان کے پاک فوج میں دو شہید ہیں۔ • ناخوشگوار واقعہ ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ • نومئی کے واقعات نہیں ہونے چاہیئے تھے۔  • یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ بے گناہ لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے  • فوج اور دیگر ادارے ہمارے اپنے ہیں، ہمیں اداروں کے ساتھ مل کر چلنا چاہئے  • پی ڈی ایم سمیت سب کو مل کر بیٹھنا چاہیے   • آصف علی زرداری نے ڈائیلاگ کی بات کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے  • وزیر اعظم شہبا...

ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے بارے میں جانتے ہو کیا کہا ہے ؟

یونانی ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﮯ۔ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ کہنا ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ کی ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﻮﻧﺎ ﻭﭨﯿﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮈﻧﮓ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻼ ﺭﮨﺘﺎ ے ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺮ ﮐﯽ بیٹی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﻣﻦ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﻓﺮﻗﮧ کی تعلیمات ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻼﻡِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ سب ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺭﻭﻣﺘﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ لونڈیوں ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺗﮭﯽ، ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ یورپ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﻥ ﺁﻑ ﺁﺭﮎ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺭِ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ جاتا ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ تھے۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ﮐو وہ مقام عطا فرمایا جو آج تک کسی مذہب میں حاصل نہیں  اب اگر عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت بیٹی ہے تو بخشش کا زریعہ بیوی ہے تو ایمان کی تکمیل کا زریعہ بہن ہے تو غیرت کا زریعہ..... صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 💕💯 م...

اسکی پیدا وار بھی کم ہے اور اس میں بھوسا بھی کم ہوتا اسکا

اسکی پیدا وار بھی کم ہے اور اس میں بھوسا بھی کم ہوتا اسکا یہ دا نے صرف لمبے ہیں باقی کوئی حاص بات اس میں نہیں میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس https://sammar12.blogspot.com #blogger #blogging #famousblogger #top10blogger #Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent ‎ #punjab ‎ ‎#mianwalians ‎#Famous www.mianwali.com.pk #میانوالی_ہوم_ٹاؤن #ملک_ثمر_عباس #MalikSammarAbbas #MianwaliHomeTown #MianwaliCity #MianwaliNews #MianwaliUpdate #Mianwali #MianwaliSocialMedia #SocialMediaactivist #Website #YouTuber #trending2020