" ہم شیر دل ہیں ! ہم بزدل ہیں !"
جب سے
سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا ہوں
اپنے اردگرد
انسانوں کو
مختلف سچوایشنز میں
اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں
شیردل پایا ہے یا بزدل پایا ہے۔۔
یقین مانیں
اپنے ضلع میں
ہم نے
ہمیشہ گھاٹے کے سودے کرتے ہوئے ہی
اپنے آپ کو شیر دل پایا ہے
اور منافع کے سودے کرتے ہوئے
اپنے آپ کو بزدل پایا یے۔۔
مثلا ہم
ایک گالی کے عوض، ایک مرلہ زمین کے عوض، والی بال کے میدان میں ایک پوائنٹ کے عوض، ایک اوئے کے عوض، میں تیکو سیانڑداں ہاں کے عوض،
قتل تک اس لیے کر دیتے ہیں کیونکہ
ہمارے کلچر میں
ایسا کرنے والوں کو شیر دل گردانا جاتا ہے۔۔
شادی تقریبات میں
زنانہ ڈانسروں پر، گلوکاروں پر، خواجہ سراؤں پر،
لاکھوں روپے
صرف اس لیے اڑا دیے جاتے ہیں کیونکہ
آج کل نوٹوں کو کاغذوں کی مانند
غیر اہم سمجھ کر
پاوں میں رول دینا ہی
شیردلوں کا شیوہ سمجھا جاتا ہے۔۔
جہاں جہاں
ہم شیر دل بن جاتے ہیں
وہاں وہاں
چھوٹی چھوٹی بات پر
انسان کی جان لینا آسان بن جاتا ہے۔۔
پیسے کو ہوا میں اڑانا شغل بن جاتا ہے۔۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ
جہاں جہاں
ہمارا پیسہ
فقط پاوں میں ہی نہیں رلتا رہتا
بلکہ
کسی انسان کی زندگی بدل سکتا ہے،
جہالت کو شعور میں بدل سکتا ہے،
غربت کو امارت میں بدل سکتا ہے،
ناکارہ انسان کو مفید انسان بنا سکتا ہے،
وہاں وہاں
ہم بزدل بن جاتے ہیں
اور ہمیں
اپنے نوٹ،
محض کاغذ کے ٹکڑے نظر نہیں آتے بلکہ
حقیقی و قیمتی نوٹ،
خون پسینے سے کمائے ہوئے نوٹ،
نظر آنے لگتے ہیں۔۔
حیرت ہے۔۔
جواء، شراب، زنا، قتل،
جیسے مذموم کاموں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے،
زنانہ ڈانسروں، خواجہ سراؤں، گلوکاروں پر پیسے اڑاتے ہوئے،
ہمیں
اپنی کمائی، خون پسینے کی کمائی نظر نہیں آتی
لیکن
کسی انتہائی ٹیلنٹڈ
اور مستحق طالب علم کو
چند ہزار فیس کی مد میں دیتے ہوئے
ہمیں
اپنی کمائی خون پسینے کی کمائی نظر آنے لگتی ہے۔۔
اے رب ذوالجلال !
ہمیں
روزمرہ زندگی میں
ہر حقیقی غیرت والے مقام پر
شیر دل بنا دے۔۔۔
اور
ہر گھٹیا، مذموم، بےفیض، جھوٹی انا کے مقام پر
بزدل بنا دے۔۔۔
ایک غریب و مخلص بھائی
پیر ببا کا مہمان بنے ہوئے۔۔
آپ سب بھائیوں کی محبتوں کا عکس بنے ہوئے۔۔
_____ موساز _____
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
جب سے
سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا ہوں
اپنے اردگرد
انسانوں کو
مختلف سچوایشنز میں
اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں
شیردل پایا ہے یا بزدل پایا ہے۔۔
یقین مانیں
اپنے ضلع میں
ہم نے
ہمیشہ گھاٹے کے سودے کرتے ہوئے ہی
اپنے آپ کو شیر دل پایا ہے
اور منافع کے سودے کرتے ہوئے
اپنے آپ کو بزدل پایا یے۔۔
مثلا ہم
ایک گالی کے عوض، ایک مرلہ زمین کے عوض، والی بال کے میدان میں ایک پوائنٹ کے عوض، ایک اوئے کے عوض، میں تیکو سیانڑداں ہاں کے عوض،
قتل تک اس لیے کر دیتے ہیں کیونکہ
ہمارے کلچر میں
ایسا کرنے والوں کو شیر دل گردانا جاتا ہے۔۔
شادی تقریبات میں
زنانہ ڈانسروں پر، گلوکاروں پر، خواجہ سراؤں پر،
لاکھوں روپے
صرف اس لیے اڑا دیے جاتے ہیں کیونکہ
آج کل نوٹوں کو کاغذوں کی مانند
غیر اہم سمجھ کر
پاوں میں رول دینا ہی
شیردلوں کا شیوہ سمجھا جاتا ہے۔۔
جہاں جہاں
ہم شیر دل بن جاتے ہیں
وہاں وہاں
چھوٹی چھوٹی بات پر
انسان کی جان لینا آسان بن جاتا ہے۔۔
پیسے کو ہوا میں اڑانا شغل بن جاتا ہے۔۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ
جہاں جہاں
ہمارا پیسہ
فقط پاوں میں ہی نہیں رلتا رہتا
بلکہ
کسی انسان کی زندگی بدل سکتا ہے،
جہالت کو شعور میں بدل سکتا ہے،
غربت کو امارت میں بدل سکتا ہے،
ناکارہ انسان کو مفید انسان بنا سکتا ہے،
وہاں وہاں
ہم بزدل بن جاتے ہیں
اور ہمیں
اپنے نوٹ،
محض کاغذ کے ٹکڑے نظر نہیں آتے بلکہ
حقیقی و قیمتی نوٹ،
خون پسینے سے کمائے ہوئے نوٹ،
نظر آنے لگتے ہیں۔۔
حیرت ہے۔۔
جواء، شراب، زنا، قتل،
جیسے مذموم کاموں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے،
زنانہ ڈانسروں، خواجہ سراؤں، گلوکاروں پر پیسے اڑاتے ہوئے،
ہمیں
اپنی کمائی، خون پسینے کی کمائی نظر نہیں آتی
لیکن
کسی انتہائی ٹیلنٹڈ
اور مستحق طالب علم کو
چند ہزار فیس کی مد میں دیتے ہوئے
ہمیں
اپنی کمائی خون پسینے کی کمائی نظر آنے لگتی ہے۔۔
اے رب ذوالجلال !
ہمیں
روزمرہ زندگی میں
ہر حقیقی غیرت والے مقام پر
شیر دل بنا دے۔۔۔
اور
ہر گھٹیا، مذموم، بےفیض، جھوٹی انا کے مقام پر
بزدل بنا دے۔۔۔
ایک غریب و مخلص بھائی
پیر ببا کا مہمان بنے ہوئے۔۔
آپ سب بھائیوں کی محبتوں کا عکس بنے ہوئے۔۔
_____ موساز _____
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں