صائم جی نے اپنا شعری مجموعہ ۔ بہر کیف عنائیت فرمایا جس پر میں اسکا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ مالک اسکے سخن اور عزت میں مذید برکتیں عطا فرماۓ آمین
چند اشعار قارئیں کی دلچسپی کے لیے حاضر ہیں
نگار خانۂ ہستی کی یار مستی میں
طلسم لمس کی ان حدتوں سے بڑھتے ہیں
پڑے جو قحط کبھی روشنی کا باطن میں
کسی فقیر کے حجرے میں جا نکلتا ہے
میں نے پالا ہے تری یاد کو صائم ایسے
جیسے ماں بچے کو ہر دُکھ سے بچا کر رکھے
آدمی کی خدا سے دُوری ہی
آدمی کو خدا بناتی ہے
دل تو مٹی کا ایک برتن ہے
خوبصورت وفا بناتی ہے
اب کوئی بولتا نہیں مجھ سے
میری آواز ہی مصیبت ہے
ایک وہ وقت کہ چُھونا بھی جسے مُشکل تھا
آج پہلو میں اُسے پا کے پسینے نکلے
تُم حور ہو ،جنت کی پری ہو کہ غزل ہو
جو کچھ بھی ہو قدرت کا ہو شہکار بہر کیف
سرورِ وجد میں کسی کے پاوں چُھو لیے گئے
مرے وجود کو ہی پھر دھمال کر دیا گیا
مرے نبیؐ کا معجزہ ہے عام سے غُلام کو
اذان بخش دی گئی ،بلال کر دیا گیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں