میرا میانوالی -----------------------
کل ایک مقامی اخبار میں ڈاکٹر طارق نیازی کا کالم نظر سے گذرا - ڈاکٹر صاحب کا انداز تحریر دیکھ کر خوشی بھی محسوس ہوئی ، فخر بھی , کہ ہمارے میانوالی میں ایسے صاحب قلم لوگ بھی موجود ہیں - یہ اللہ کا خاص کرم ہے اس دھرتی پر -
ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کبھی نہیں ہوئی ، مگر وہ جو کسی بزرگ نے کہا تھا “ ولی را ولی می شناسد“ - ولی کو ولی ہی پہچان سکتا ہے - ہم دونوں ولی تو نہیں ، گناہ گار سے انسان ہیں - لہذا یہ کہوں گا کہ قلم کار را قلم کار می شناسد - ڈاکٹر صاحب غالبا میانوالی کے پہلے صاحب قلم ڈاکٹر ہیں - اللہ کرے زور قلم اور زیادہ -
ڈاکٹر طارق نیازی شہبازخیل ہیں - اس وقت راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ایڈیشنل ایم ایس کے منصب پر فائز ہیں - ان کے کالم کا عنوان ہے “سپھر“ ------ سپھر ہمارے دیہات میں ماہ صفر کو کہتے ہیں - ڈاکٹر صاحب نے صفر کی تقریبات کے حوالے سے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کی ہیں -
صفر کی تقریبات ماہ صفر کے آخری بدھ کو منعقد ہوتی ہیں - ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ سیدالمرسلین علیہ الصلوات والسلام کی طبیعت ایک بار صفر کے مہینے میں ناساز ہوگئی - علاج بھی ہوتا رہا ، مگر شفا رب کریم نے چوری (choori) کھانے سے عطا کی - یہ واقعہ ماہ صفر کے آخری بدھ کو ہوا - اس لیے صفر کا آخری بدھ متبرک سمجھا جاتا ہے ، اور اس دن ہر گھر میں چوری بنا کر کھائی جاتی ہے --- ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضور کی طبیعت بحال ہوئی تو آپ نے یہ چوری کھانے کی فرمائش کی - اب تو زمانہ بدل گیا ---- پھر بھی بعض گھروں میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے - ہم بھی کرتے ہیں -
صفر کی چوری ایک مخصوص چوری ہوتی ہے جو چکی پر پسے ہوئے گندم کے موٹے آٹے سے بنتی ہے - آٹے کی موٹی سی روٹی ( روٹ یا روٹا بھی کہتے تھے ) توے پر پکا کر اسے کوٹ کر ریزہ ریزہ کر کے اس میں گھر کا خالص دیسی گھی اور شکر ملا ئیں تو صفر کی چوری بن جاتی ہے - بہت لذیذ چیز ہوتی ہے -
ڈاکٹر طارق نیازی بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں اس چوری میں کچھ پیسے آنہ ۔ دو آنے ۔ چونی اٹھنی وغیرہ بھی ملا دیتے تھے - چوری کی ساہنڑک کے گرد بچے پلتھی ( آلتی پالتی ) مار کر بیٹھ جاتے - چوری کھاتے ہوئے جس بچے کے ہاتھ پیسے لگتے اسے خوش قسمت سمجھا جاتا تھا - یہ رواج ہمارے داؤدخیل میں نہیں تھا ، ڈاکٹر صاحب کے شہباز خیل میں ضرور ہوتا ہوگا -
چوری کی حد تک تو صفر ایک اسلامی تقریب تھی - ایک اور تقریب خدا جانے کس نے ایجاد کی تھی ، چھپر کوٹنا کہلاتی تھی - بچوں کی ٹولیاں چوری کھانے کے بعد لاٹھیوں سے مسلح ہو کر محلے کا چکر لگاتیں ، جہاں بھی کوئی چھپر نظرآتا اس پر لاٹھیاں برسانا شروع کردیتے - چھپر تو تقریبا ہر گھر میں ہوتا ہی تھا - دن بھر یہ ہنگامہ برپا رہتا - گھروں کے چار پانچ لوگ پچیس تیس بچوں کا کیا بگاڑ سکتے - دور کھڑے ہو کر گالیاں دیتے رہتے تھے -
داؤدخیل میں ہم بھی بچپن میں چھپر کوٹنے کی واردات میں باقاعدہ ملوث ھؤا کرتے تھے - آج کل لوگ برداشت اور تحمل سے عاری ہیں - بندوقیں پستول بھی ہر گھر میں پڑے ہوتے ہیں ، اس لیے اب یہ معصوم واردات ممکن نہیں - ڈاکٹر طارق نیازی نے بھی اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کیا ہے -
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
--------------------------------------------------- رہے نام اللہ کا ------------------------------------------------
------ منورعلی ملک ------
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
https://sammar12.blogspot.com
#blogger #blogging #famousblogger #top10blogger
#Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent
#punjab
#mianwalians #Famous
www.mianwali.com.pk
#میانوالی_ہوم_ٹاؤن
#ملک_ثمر_عباس
#MalikSammarAbbas
#MianwaliHomeTown
#MianwaliCity
#MianwaliNews
#MianwaliUpdate
#Mianwali
#MianwaliSocialMedia
#SocialMediaactivist
#Website #YouTuber
#trending2020
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں