’’ تاریخ نیازی قبائل‘‘’’ تاریخ نیازی قبائل‘‘
(تبصرہ : ملک ثمر عباس)
تاریخ نیازی قبائل حاجی محمد اقبال خان نیازی کی طویل علمی ریاضت کا ثمر ھے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کی جلاوطنی سے آغاز کرتے ھوئے مختلف نیازی قبائل کی جامع تاریخ مرتب کی ھے
۔ نیازی قبائل سے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ کسی ملکی یا غیر ملکی محقق کی نہیں بلکہ علاقے کے ایک فرد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
’’ تاریخ نیازی قبائل‘‘ ایک قیمتی اثاثہ جس پر بجا طور پر نیازیوں کو فخر ھونا چاھئیے
خاندانوں اور قبیلوں کے آبا و اجداد، ان کی بنیادی جائے سکونت، ہجرت اور حسب نسب کی کھوج لگانے اور ان کے شجرہ ہائے نسب کو ان کے تاریخی حوالوں سے ترتیب دینے کے علم کو علم الانساب یا جنیالوجی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی اور سب سے بڑھ کر غربت کی وجہ سے بہت کم ایسے خاندان اور گھرانے ہوں گے جن کے پاس ان کے خاندانوں کا کوئی مستند تاریخی ریکارڈ موجود ہوگا۔ لوگوں کو اپنی دو چار نسلوں سے آگے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے، تو وہ حد درجہ مبالغہ آمیز، مشکوک اور ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔
تاریخ وہ فعال قوت ھے جو اقوام عالم کے عروج و زوال کے آئنے میں انسانوں کے لمحہ ء موجود کی صورت گری کرتی ھے
حاجی محمد اقبال خان نیازی کی کتاب " تاریخ نیازی قبائل ”
بھلا کس کے پاس اس قدر وقت اور درکار وسائل موجود ہوتے ہیں کہ وہ پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ کے بارے میں گہرائی میں جاکر دیکھے، جگہ جگہ کی خاک چھان مارے، بڑے بوڑھوں سے مل کر ان سے سینہ بہ سینہ روایات سنے اور انہیں قلمبند کرکے دیگر دستیاب تاریخی حوالہ جات سے موازنہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچے۔ عام آدمی تو سوچتا ہے کہ یہ خاندانی ریکارڈ رکھنا بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کا کام رہا ہے، جہاں تخت و تاج کو وارثوں کو منتقل کرنا ہوتا تھا اور اپنی اعلیٰ ذات اور حسب نسب کو ناخالص ہونے سے بچانا مقصود ہوتا تھا یا پھر جاگیرداروں اور وڈیروں کا کام تھا جنہیں اپنی زمین کی وراثت کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام عام آدمی کے لیے بھی اتنا ضروری کیوں ہے؟ درحقیقت یہ معلوم کرنا کہ میں کون ہوں، میرے آبا و اجداد کون تھے اور کہاں سے آکر کہاں آباد ہوئے تھے؟ انسانوں کو باقی حیوانات سے ممیز کرتا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ معاشروں کے عام گھرانوں میں اپنا خاندانی شجرہ رکھنا اور اپنے آباو اجداد کے ترک وطن اور ہجرت سے متعلق تمام معلومات پورے ماہ و سال کی تفصیلات کے ساتھ اپنے بچوں کو منتقل کرنا صدیوں سے عام ہے۔
علم الانساب ایک پیچیدہ تحقیقی عمل ہے جس میں تاریخی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ رشتوں کو ظاہر کرنے کے لیے بعض اوقات جینیاتی تجزیہ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ مستند ذرائع کو بنیاد بناکرجن میں اصل دستاویزات بھی شامل ہوتی ہیں، قابل بھروسا نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، تاکہ کسی خاندان کی تاریخی کڑیوں کے درمیان کوئی ابہام نہ رہے۔ اس طرح ماہرین علم الانساب اپنی تحقیق کو خاندانی سینہ بہ سینہ روایات کو جمع کرنے سے شروع کرتے ہیں۔
اپنے اپنے خاندانوں اور ان کی تاریخ کے بارے میں ایک عمومی بیداری کی کیفیت پیدا ہوگی۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس طرح نہیں اس طرح درست ہے۔ ایک مباحثے کا آغاز ہوگا جس کا نتیجہ بہرصورت حقائق سے قریب تر شکل میں سامنے آئے گا۔
یہی شجرے اس کتاب کا اصل حاصل ہیں جن کی تحقیق اور تصحیح کے لیے جو محنت مصنف نے کی ہے، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔کسی خاندان کے سرکردہ اور ذمہ دار فرد سے رابطہ رکھنا (اور بار بار یادہانی کرکے) اس سے شجرہ لکھوانا یا اس کی مدد سے خود لکھنا، پھر اس کاخاندان کے دوسرے افرادسے نظرثانی کروانا کافی محنت طلب کام ہے۔
نیازی قبائل کی تاریخ کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے شجروں کے ساتھ ساتھ نیازی قبائل کی مختلف ہجرتوں کا بیان بھی ہے اور یہ قبائل میانوالی میں کیسے آ کر آباد ہوئے اور کیسے اس علاقے میں اپنی ایک الگ شناخت کو قائم رکھا اس پر بھی بات کی گئی ہے ۔۔۔
مختصراً 1264 صفحات پر مبنی اس کتاب میں تقریباً چھ سو صفحات میں شجرے رقم ہیں تو باقی ماندہ میں تاریخ بیان کی گئی ہے جس کے لیے کئی مستند تاریخی کتب سے مدد لی گئی ہے ۔۔
ارسل نیازی تمہارے لئے بہت سی دعائیں
حاجی محمد اقبال خان نیازی کے درجات کی بلندی کے لئے دعا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں