نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ناول “کچہ” کے بارے میں

کچھ ناول “کچہ” کے بارے میں!!!

میں پروفیسر سرور نیازی سے کبھی نہیں ملا۔
ڈاکٹر مختار سرور نیازی سے ایک محبّت بھرا بے تکلف رشتہ ہے۔ بارہا ان سے علمی نششت ہوئی اور اس ہر نششت میں پروفیسرسرور نیازی کا تذکرہ ضرور ہوا۔ مختار نیازی صاحب کی گفتگو میں دو لوگوں کا ذکر ہمیشہ ہی آ جاتا ہے۔ ایک تو جواں سال شہید سجاد سرور نیازی کا یا پھر اپنے عظیم الشان بابا پروفیسر سرور نیازی کا۔ ذکر ان دونوں میں سے کسی کا بھی ہو، شہباز خیل کے ڈاکٹر نیازی کا لہجہ آنچ دینے لگتا ہے۔ کبھی بھائی کی جواں سال موت کے مرثیے سے تو کبھی اپنے بابا کی دلکش شخصیت کے قصیدے سے۔ یوں آہستہ آہستہ میں بھی پروفیسر سرور نیازی سے متعارف ہونے لگا۔ اگرچہ کہ یہ تعارف غائبانہ ہی تھا مگر روحوں کا روحوں سے جوڑ تو پرانا و غائبانہ ہی ہوا کرتا ہے۔ اس وقت تک پروفیسر صاحب ایک انگریزی کے نامور استاد کی حیثیت سے ہی سامنے آئے تھے جن کے میانوالی کے ہر کوچے گلی میں شاگرد موجود تھے۔
کچھ روز بیتے تو پروفیسر نیازی صاحب کا ایک اور روُپ سامنے آیا۔ گیا تو میں اپنی جنم دھرتی وادئ سون کو تھا مگر وہاں جس مہان شخصیت کا ذکر سُنا وہ پروفیسر سرور نیازی ہی تھے۔ اپنے عہد کا نابغہ عدنان عالم اعوان اپنے تئیں اپنی ثقافت کو بچانے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل ہے۔ اسی سلسلے میں “اپنی سونڑ بولی تے ثقافت” جیسے پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہیں پر پروفیسر سرور نیازی صاحب کی مدلل گفتگو مختلف “اکھانڑوں” کے متعلق سُننے کا اتفاق ہوا۔ ان کی شخصیت سے منسلک ایک ایسا روپ ظاہر ہوا جو مختار صاحب کی گفتگو میں عمومی طور پر ناپید تھا۔
بات ابھی اکھانڑوں پر اور انگریزی گرامر کے اصولوں پر چل رہی تھی کہ ڈاکٹر مختار سرور نیازی صاحب نے ایک واٹس ایپ میسج شئیر کیا۔ پیغام کیا تھا، ایک اعلان تھا۔ پروفیسر سرور نیازی صاحب کا ناول “کچہ” طباعت کے مراحل میں تھا۔ اچھا تو ناول نگار بھی… پیاز کی اترنے والی یہ ایک اگلی تہہ تھی۔ “کچہ” کے ہم بھی منتظر ہو گئے کہ پتہ تو چلے سرور نیازی صاحب کس پائے کے لکھاری ہیں۔ ایک دن اخبار کی ورق گردانی کے دوران منصور آفاق کا کالم آ گیا۔ کالم کیا تھا، ناول “کچہ” کا تعارفی فلیپ تھا۔ اشتیاق دو آتشہ ہو گیا۔ پھر اطلاع ملی کہ ناول فروخت کے لیے موجود ہے۔ فوری طور پہ مجلسِ ترقئ ادب سے رابطہ کیا گیا اور بہت ہی مشکلوں سے ایک کاپی حاصل کی۔ یُوں “کچہ” ہمارے ہاتھوں میں مانندِ چاند طلوع ہوا۔
کتاب کے دیباچے میں منصور آفاق نے بڑی گہری بات کہی۔ لکھتے ہیں کہ “کچہ” لکھ کر پروفیسر سرور نیازی نے دو لوگوں کو مرنے سے بچا لیا ہے —— ایک خود پروفیسر سرور نیازی کو اور دوسرے “کچہ” کو۔ دونوں ہی اپنی ذات میں انجمن ہیں مگر دنیا دونوں سے انجان ہے۔ شوق کو مہمیز مزید ہوئی۔ یوں ہم آہستہ آہستہ “کچہ” کے جہانِ حیرت میں گم ہوئے۔
کچہ میں ہر وہ چیز بدرجۂ اُتم پائی جاتی ہے جو کسی بھی بڑے ناول کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ پلاٹ، کردار، ٹریجڈی، محبت، ہجرت، سماج، بھلائی و برائی ہر احساس پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے۔ کچہ نے اردو ادب کو کچھ نئی اصطلاحات سے رُوشناس کرایا ہے۔ کچھ نیا اسلوب ملا ہے جس سے اردو ادب انجان تھا اب تک۔ کہتے ہیں کہ دیہات کی جو منظر کشی بلونت سنگھ نے کی ہے یا پھر منشی پریم چند نے وہ دیگر ناول نگاروں کے ہاں مفقود ہے مگر میرا یقین ہے کہ کچہ پڑھنے کے بعد آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کچہ کے دیہات کی جو منظر کشی سرور خان نیازی نے کی ہے اس سے ابھی تک اردو ناول محروم تھا۔
کہانی کا آغاز گُل خان کی پیدائش سے ہوتا ہے جہاں تونی توتی ایک پیراک کی صورت دکھائی دیتی ہے جو مائی کے تھلے پر چڑھے دریا کے باوجود دیا جلا آتی ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے جیسے زیتون اور گُل خان ہی کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ مگر کہانی پلٹا کھاتی ہے اور بظاہر غیر اہم دکھائی دینے والے شیر سمند خان و قرۃ العین کہانی کے اہم ستون بن جاتے ہیں۔ لما اور اُبھا نارو کے گلی کوچوں میں ہر لمحہ پلٹتی یہ کہانی جہاں دیہی ایثار و محبت کے ان لمحوں کی روئیداد سناتی ہے جو اب قریب قریب ناپید ہو چکے ہیں وہیں پر معاشرتی ناسوروں کا بھی کھل کر احاطہ کرتی ہے۔
تحصیلدار، پٹواری، ایس ایچ او، وکیل، ایس پی، جج، گیم انسپکٹر اور ان جیسے کتنے کردار ایسے سامنے آتے ہیں جن کا اصل اور گھناؤنا چہرہ بغیر کسی لگی لپٹی کے کچہ کے اوراق میں ملتا ہے۔ پروفیسر صدیقی کی شکل میں ہر لمحے گماں گزرتا ہے کہ یہ خود پروفیسر سرور نیازی صاحب کا کردار ہے۔ اوراق میں قدم قدم پر مختلف ناولوں کا تذکرہ صاحبِ کتاب کے وسعتِ مطالعہ پر دلالت ہے۔ فلسفہ اور انگریزی ادب کو چند سطروں میں یوں کھول کر رکھ دینا بھی پروفیسر صاحب کا ہی خاصہ ہے۔ پھر عطایا دانا یا اتُو کملا ایک اور ہی دنیا کا راز آشکار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ بھی ہو، کچہ میں ہر جہت اور ہر رمز کا رنگ پایا جاتا ہے۔
نیازی صاحب کا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے دم توڑتے معاشرے کے وہ جیتے جاگتے کردار زندہ کر دئیے ہیں جن کو آج کوئی بھی اپنانا نہیں چاہتا۔ کوئی مصلّی، کوئی ترکھان، کوئی مراثی، کوئی جُلاہا، کوئی کُمہار، کوئی موچی اپنی شناخت اپنے ہُنر سے کروانا نہیں چاہتا۔ پروفیسر صاحب نے معاشی ترقی کا قابلِ عمل نقشہ پیش کیا ہے۔ مائی تھلہ کمپلیکس کی صورت میں معاشی غارت گری کا مکمل رفو شدہ پلان دکھائی پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں یقیناً معاشی تباہی کی ایک بڑی وجہ ان چھوٹی دستکار و ہنر مند قوموں کا اپنے پیشے سے باغی ہو جانا بھی ہے۔ ہم نے ان لوگوں کے ہنر کی قدر کرنے کی بجائے ان کے پیشے کو ایک گالی کے طور پر پیش کیا اور انہیں کمترین سمجھا۔ نتیجتاً ہم معاشی طور پر بدحال نہ ہوتے تو پھر یقیناً یہ ایک معجزہ ہوتا۔
بھڈی اور بھڈا —— ایک افسانوی جوڑا جو پروفیسر صاحب کے تخیّل کی پرواز اور مشاہدے کی تخلیق ہے۔ بھڈی کی صورت میں نیازی صاحب نے عورت کے حُسن اور وفا کو مجسم کر دیا ہے۔ اسے بدن عطا کر کے نئے معانی اور نئی پہچان دی ہے۔ بھڈی جیسی عورت ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے اور جہاں اسے بھڈی نظر آتی ہے وہیں وہ قدرت اللہ کی طرح اپنا پیشۂ معلمی، مولوی چھرا کی طرح اپنی قبائے علمی اور نصراللہ خان کی طرح اپنی خلعتِ فاخرہ پسِ پشت ڈال کر سوالی بنا دروازے پر ڈیرہ جما لیتا ہے۔ ناول پڑھنے کے بعد آپ کو مولوی چھرا، قدرت اللہ یا نصراللہ خان بے قصور ہی نظر آتے ہیں۔ بھڈی کی کشش ہی اتنی ہے کہ مرد بے مول ہو جاتا ہے مگر اس پر بھڈی کی وفا نے اسے اَمر کر دیا ہے۔ بھڈے جیسے مرد کے ساتھ نباہ کر کے اس نے ثابت کیا ہے کہ عورت کو اگر وفا و خلوص کی مورت کہا جاتا ہے تو غلط نہیں کہا جاتا۔
کچہ کا پلاٹ جہاں وسیع و عریض ہے وہیں پر اس کا اسلوب بھی جاندار اور وزنی ہے۔ ناول نگار نے واحد متکلم حاضر کے انداز میں ناول تحریر کیا ہے اور کمال تحریر کیا ہے۔ ہر کردار آپ سے باتیں کرتا اور آپ کو اپنی کہانی بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر ایک کا راز و نیاز قاری سے ہوتا ہے اور قاری کو ہر کردار سے ایک نہانی تعلق پَنپتا محسوس ہوتا ہے۔
کچہ میں مختلف النوع اور کثیر الجہت کرداروں کی ایک پوری کہکشاں آباد ہے۔ ہر کردار اپنی ذات میں ایک پوری دنیا آباد کیے بیٹھا ہے۔ یہ شیر سمند خان، قرۃ العین، زیتون تونی توتی، گل، پھُلا، بھڈی، بھڈس، بدو، رانی، رستم، اتو کملا یا عطایا دانا، مہر منظور، چاچا احمُد، نصراللہ خان، قدرت اللہ، مولوی چھُرا، پروفیسر صدیقی، خُتیجاں، ایس ایچ او، ایس پی، جج اور انار گُل جیسے کردار ہیں جو کچہ کا چہرہ ہیں۔ انہی کرداروں کے مابین میں نے کچہ کو دیکھا، پرکھا ہے اور جیا ہے۔ ان کے ساتھ یوں وقت گزرا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی ایک کچوکر ہوں اور دھلہ عظمت خان میں میری بھی مٹی بسی ہے۔ بلا شک و شُبہ کچہ عہدِ حاضر کا ایک مضبوط ترین اور منضبط ترین ناول ہے۔
کچہ کا کینوس مکمل طور پر دیہاتی ہے۔ آپ کو پرندوں، درختوں، جانوروں، زمینوں، کھانوں اور لوک گیتوں کا اتنا مکمل اور وسیع ذخیرہ —— بلکہ انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا —— کہیں اور نہیں ملے گا۔ ایسے ایسے جنگلی حیات کے نمائندہ جانور و پرندے اور درختوں کی انواع و اقسام جس سے آج کا قاری نابلد ہے، کچہ کی بدولت ہمیں جیتے جاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ چرغ ہو یا ٹوکا، گلہری ہو یا سویر، ٹہلی ہو یا بیری، شیشم ہو یا دھریک —— غرضیکہ انواع و اقسام کے چرند پرند ہر صفحے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ پھر کچّہ کے روایتی پکوان منہ میں پانی بھر دیتے ہیں۔ وِسنن، گھی شکر، کٹوا اور ایسے ہی نت نئے نام آپ کو ایک بھر پور ماضی کی پہچان کرواتے ہیں۔
ناول میں جا بجا لوک گیتوں کا ذکر اور برمحل استعمال اسے اور ہی رنگ کا لازوال رُوپ عطا کرتا ہے۔ کبھی تو ٹوبری پہ پانی بھرتی ناری کا رُوپ بہروپ دیکھ کر منہ سے نکلتا ہے…
تُو نہ سُکی ہاں ٹوبرئیے
تُو تے کریندی ہئیں سجناں دے نت میلے
تو کبھی جوان گبھرو کی موت پر کُرلاتے ہوئے منہ سے نکلتا ہے…
اُٹھی جاگ لالہ
اُٹھی جاگ لالہ
اسیں کیہڑے ویلے دیاں کھڑیاں
سر گئیاں ساڈے پیراں دیاں تلیاں
پھر وَنی جیسی رسم اور “چٹے چولے” جیسے طوق کی لعنت اور اس کے ترک کی کوششیں ناول نگار کی مثبت سوچ اور معاشرے کی تعمیری سوچ کی عکّاس ہیں۔ پروفیسر نیازی صاحب کی ناول میں مثبت تبدیلی کی یہ تبلیغ انہیں بطور مصلح قوم کے پیش کرتا ہے جو ناول میں تبلیغ (preach) کے عنصر کا بھی کماحقہ احاطہ کرتا ہے۔
جہاں کچہ ایک مکمل اور بھرپور ناول ہے وہیں پر ناول نگار کی اولین کاوش کا علمبردار بھی ہے۔ توقیت نگاری کی خامیاں جگہ جگہ پر آپ کو دکھائی دیتی ہیں۔ کچّہ کا آغاز ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ایک صدی قبل کا منظر پیش کیا جا رہا ہے۔ درمیان میں آکر قاری کو اپنی کم فہمی کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ تو ہمارے ہی عہد کی کہانی بیان کی جا رہی ہے۔ جہاں ریکارڈز کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے اور واں بھچڑاں والوں کو چرغ بارہ لاکھ کا بیچا جا رہا ہے۔ بھٹو اور ضیاء کے دور کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ پھر بالکل اختتامی ابواب میں چشمہ جھیل کا بننا اور کچّہ کے تیس دیہات کا خاتمہ پھر سے اسے پچاس سال قبل کا اختتامیہ دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ توقیت نگاری کی یہ خامی کچہ کے عظیم الشّان تاثر کو کچھ کم ضرور کرتی ہے مگر پروفیسر صاحب کے لیے نظرِ ثانی کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے۔
اسی طرح جگہ جگہ کمپوزنگ کی خامیاں ایک کمزور پروف رِیڈ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ بعض جگہ الفاظ آپس میں گڈمڈ ہو گئے ہیں اور قاری کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر ناول انتہائی باریک لکھائی میں چھاپا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کو کم صفحات میں سمونے کے لیے اس کے فونٹ کا سائز انتہائی کم کر دیا گیا ہے۔ یہ ناول با آسانی چھ سات سو صفحات پر مشتمل ہے مگر ناشر نے اسے ۴۳۲ صفحات تک محدود کر کے قاری کی آنکھوں کا خوب امتحان لیا ہے۔
ایک اور چیز جو کچہ میں شدّت سے آشکار ہوتی ہے وہ ناول نگار کی مکالمہ نگاری کی جھجک ہے۔ مکالمہ نگاری کہیں بھی مکمل نظر نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر کردار خود کلامی کر رہا ہے۔ جہاں مضبوط مکالمے کی ضرورت ہوئی بھی —— اور پروفیسر نیازی صاحب نے وہاں ایک جاندار مکالمہ لکھا بھی —— تو کمپوزر اسے ایک عمدہ مکالمے کی صورت کمپوز کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جس سے ایک جاندار اور مضبوط ناول کا تاثر تھوڑا سا پھیکا پڑ گیا ہے۔
ان تمام خامیوں کے باوجود کچہ ایک بڑا ناول ہے۔ اس میں ایک بڑے ناول کے تمام اجزاء موجود ہیں۔ نیازی صاحب یقیناً ایک بڑا ناول تحریر کر چُکے ہیں۔ مزید توقیت و کمپوزنگ کی جملہ خامیاں درست کرنے کے بعد یقیناً نقاد اور اردو کے محققین کچّہ کو اسی فہرست میں جگہ دیں گے جہاں علی پور کا ایلی، اداس نسلیں، آگ کا دریا اور خس و خاشاک زمانے براجمان ہے۔
اور یہ تو میں آپ کو پہلے ہی بتا چُکا ہوں کہ میں پروفیسر سرور نیازی سے کبھی نہیں ملا۔

میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس https://sammar12.blogspot.com #blogger #blogging #famousblogger #top10blogger #Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent ‎ #punjab ‎ ‎#mianwalians ‎#Famous www.mianwali.com.pk #میانوالی_ہوم_ٹاؤن #ملک_ثمر_عباس #MalikSammarAbbas #MianwaliHomeTown #MianwaliCity #MianwaliNews #MianwaliUpdate #Mianwali #MianwaliSocialMedia #SocialMediaactivist #Website #YouTuber #trending2020


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نومئی کے واقعہ پر دل بہت ہی رنجیدہ ہے

پنجاب اسمبلی،لاہور31 مئی 2023 • سپیکر پنجاب اسمبلی سردار محمد سبطین خان کی اپنے چیمبر میں میڈیا سے گفتگو • سب سے پہلے پاکستان ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی • نومئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں • سیاسی مسائل کے حل کے لئے گرینڈ ڈائیلاگ اشد ضروری ھیں • پاکستان کا پرچم سر بلند ہے تو ہماری بھی عزت ہے اور اداروں کی بھی۔ • نومئی کے واقعہ پر دل بہت ہی رنجیدہ ہے  • جو کچھ بھی ہوا۔ وہ فرد واحد کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس سے ملک کی بے توقیری ہوئی۔ • فوج ہو یا کوئی اور ادارہ،یہ سب ہمارے اپنے ہیں • میرا اپنا خاندان سپاہی سے لےکر لیفٹیننٹ جنرل تک فوج کا حصہ ہیں۔  • ہمارے خاندان کے پاک فوج میں دو شہید ہیں۔ • ناخوشگوار واقعہ ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ • نومئی کے واقعات نہیں ہونے چاہیئے تھے۔  • یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ بے گناہ لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے  • فوج اور دیگر ادارے ہمارے اپنے ہیں، ہمیں اداروں کے ساتھ مل کر چلنا چاہئے  • پی ڈی ایم سمیت سب کو مل کر بیٹھنا چاہیے   • آصف علی زرداری نے ڈائیلاگ کی بات کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے  • وزیر اعظم شہبا...

ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے بارے میں جانتے ہو کیا کہا ہے ؟

یونانی ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﮯ۔ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ کہنا ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ کی ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﻮﻧﺎ ﻭﭨﯿﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮈﻧﮓ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻼ ﺭﮨﺘﺎ ے ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺮ ﮐﯽ بیٹی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﻣﻦ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﻓﺮﻗﮧ کی تعلیمات ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻼﻡِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ سب ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺭﻭﻣﺘﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ لونڈیوں ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺗﮭﯽ، ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ یورپ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﻥ ﺁﻑ ﺁﺭﮎ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺭِ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ جاتا ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ تھے۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ﮐو وہ مقام عطا فرمایا جو آج تک کسی مذہب میں حاصل نہیں  اب اگر عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت بیٹی ہے تو بخشش کا زریعہ بیوی ہے تو ایمان کی تکمیل کا زریعہ بہن ہے تو غیرت کا زریعہ..... صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 💕💯 م...

اسکی پیدا وار بھی کم ہے اور اس میں بھوسا بھی کم ہوتا اسکا

اسکی پیدا وار بھی کم ہے اور اس میں بھوسا بھی کم ہوتا اسکا یہ دا نے صرف لمبے ہیں باقی کوئی حاص بات اس میں نہیں میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس https://sammar12.blogspot.com #blogger #blogging #famousblogger #top10blogger #Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent ‎ #punjab ‎ ‎#mianwalians ‎#Famous www.mianwali.com.pk #میانوالی_ہوم_ٹاؤن #ملک_ثمر_عباس #MalikSammarAbbas #MianwaliHomeTown #MianwaliCity #MianwaliNews #MianwaliUpdate #Mianwali #MianwaliSocialMedia #SocialMediaactivist #Website #YouTuber #trending2020