کب تک میرے میانوالی کے بوڑھے باپ جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے
بہت افسوس کی بات ہے کہ میرا میانوالی خون میں نہایا ہوا ہے قتل و غارت ایک عام سی بات بن گئی ہے لوگوں کے لیے
چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کتنی ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں ہیں
کتنی بہنوں کے بھائی منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں
کتنی عورتیں بیوگی کی چادر اوڑھ چکی ہیں
کتنے بچے یتیم ہو چکے ہیں
افسوس کب سدھرے گا میرا میانوالی
کب تک نام نہاد غیرت کی خاطر میرے میانوالی کے بوڑھے باپ جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے
آخر کب جہالت ختم ہو گی
خدارا رحم کرو میرے پیارے میانوالی پہ
میانوالی تو شہیدو کی زمین ہے بہادروں کی سرزمین ہے
میانوالی نے ہمیشہ بہادر بیٹے پیدا کیے ہیں
ہر شعبہ ہائے زندگی میں میانوالی کے لوگ مشہور ہیں
تو کیوں قتل و غارت عام ہو رہی ہے میانوالی میں
سارے ماں باپ سے ہاتھ جوڑ 🙏🙏🙏 کے درخواست ہے کہ خدارا اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پہ کریں کہ وہ آپ کا سر فخر سے بلند کریں
بچے کی پہلے درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے بچپن سے ہی بچے کو پیارو محبت کا درس دیں
توڑ دیں یہ دشمنیوں کی روایات
دھو ڈالیں دلوں کی کدووتیں
اپنے بچوں پہ نظر رکھیں
کہ بچہ کہاں ا جا رہا ہے کہاں اٹھ بیٹھ رہا ہے کس قسم کی کمپنی میں وقت گزار رہا ہے
اجکل کی دوستیاں برباد کر رہی ہیں بچوں کو
اپنے بچوں کو فری ہینڈ دیں لیکن ان پہ نظر بھی رکھیں
انہیں معاشرے کا ایک فعال شہری بنائیں نا کہ فالج زدہ ذہن کا مالک
اپنے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرائیں
خود پوزیٹو سوچ رکھیں اپنے بچوں کے لیے مشعل راہ بنیں
والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا.جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا. اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کر لیا اور الماری سے پستول نکال لیا. اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آ گئی. دوست نے اسے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے 30 منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا.
جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کر کے اسے ابدی نیند سلا دیا. ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہو گیا. گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں. اس کی ماں بے ہوش ہو گئی. مقدمہ شروع ہوا تو گھر خالی ہونا شروع ہو گیا. ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی. بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہو گئے.بہنوں کے رشتے آنا بند ہو گئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی. جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے. بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گی؟ ہم بھائی کے ناز کیسے اٹھائیں گی؟ بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہو گئی. سزائے موت کی تاریخ مقرر ہو گئی. 25 منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہو چکا تھا. جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے. جنید کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا. 29 منٹ ہو چکے تھے. پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30 منٹ پورے ہو گئے. جنید پسینہ پسینہ ہو چکا تھا. اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی. اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا. اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا. بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے. خوب دل لگا کر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے.
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہو گیا. جنید کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں. وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں. ان 30 منٹ کی تصوراتی واردات اور 30 منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا. آپ اپنی زندگی میں یہ 30 منٹ اپنے لئے ضرور بچا کے رکھئیے گا، یہ 30 منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچا لے گی!...
زبردست کاوش
جواب دیںحذف کریںبلاشبہ بہت اچھی سمت سفر شروع کیا ہے
میانوالی دشمنی کی آگ میں جل رہا ہے
اور ہم سب اس آگ کو مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، ان شاءاللہ امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔۔
ہم سب مل کر اپنے اپنے حصہ کی شمع جلاتے چلے جائیں گے، ان شاءاللہ ۔
حذف کریںشاباش میرے بھائی۔۔۔