میانوالی کی زبان ۔۔۔۔پروفیسر سلیم احسن
زبان کی تاریخ قدیم ہے۔دنیا بھر کے لسانیات اور بشریات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ زبان ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے وجود میں آئی۔ماہرین عموما پاکستان کے خطہ پوٹھوہار اور افریقہ کی سرزمین کو زبان کی پیدائش کے علاقے سمجھتے ہیں۔پوٹھوہار دراصل وادی سندھ کا حصہ رہا ہے۔وادی سندھ دکن سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔پوٹھوہار کا ایک نام تزک جہانگیری کے مطابق سطح مرتفع نمک تھا ۔ 1001 ع میں درہ خیبر سے آنے والے مسلمانوں نے اسے نیلاب کا نام دیا۔
جغرافیائی طور پر میانوالی میں کوہستان نمک کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے۔یہاں کی کانوں سے 4 قبل مسیح سےنمک نکالا جا رہا ہے۔تاریخی طور پر میانوالی گندھارا کا حصہ رہا ہےسرکپ کے احوال و آثار اب بھی موجود ہیں۔
میانوالی سے 5 میل دور شمال کی طرف دریاۓ سندھ کے کنارے روکھڑی کے کھنڈرات میں گندھارا کی واضح نشانیاں پائی جاتی ہیں۔لسانیات کے معروف محقق اور گندھارا ریسرچ پراجیکٹ سنٹر سوات کے ڈائریکٹر جناب پرویز شاہین لکھتے ہیں کہ
,,میری تحقیق کے مطابق سرائیکی زبان خنجراب کے پہاڑوں سے لیکر دکن تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پشاچی خاندان کی زندہ و تابندہ باقیات میں سے ہے, چنانچہ اب یہ کافی حد تک طے شدہ بات ہے کہ سرائیکی قدیم زبان ہے۔اسکا تعلق پشاچی خاندان سے ہے جو دراوڑی کی ایک شاخ ہے یہ سندھی زبان کی وہ سرائیکی شکل ہے جو موجودہ سندھی زبان کے وجود میں آنے سے پہلے کوہستان نمک میں موجود تھی۔
آج کے دور میں میانوالی پنجاب کا آخری ضلع ہے اور خیبر پختونخواہ کرک بنوں اور ڈیرہ اسماعیل کی طرف سے پنجاب کا نقطہ آغاز ہے۔یہ اس مقام پر واقع ہے جسے زبانوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔یہاں زبانیں مل رہی ہیں اور جدا ہو رہی ہیں۔چنانچہ پڑوس کی مختلف زبانوں کے ایک دوسرے پر اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔میانوالی کے جنوب مشرق میں پنجابی ملی جلی زبان بولی جاتی ہے۔شمال میں پوٹھوہاری لہجہ نمایاں ہے۔شمال مغرب اور مغرب میں پشتو بولنے والے اضلاع ہیں البتہ ڈیرہ اسمماعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی ہےاور جنوب کی طرف سے وہ مسلسل سرائیکی بیلٹ سے جڑا ہوا ہے۔
میانوالی کی زبان تاریخی اور جغرافیائی اثرات کے نتیجے میں ارتقا اور امتزاج کے مراحل سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔اسکی منفرد شناخت ہونے کے باوجود یہ واضح طور وادی سندھ کی زبانوں سے گہری مماثلت اور مشابہت رکھتی ہے۔
وادی سندھ جسکا پھیلاؤ شمالا جنوبا زیادہ اور شرقا غربا کم ہے,کے نسبتا لمبے اور کم چوڑے علاقے میں سندھی کے علاوہ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جن نام ریاستی ,ملتانی , اچی ,ہندکو,ہندکی,دیرہ والوی,جٹکی, تھلی ,تھلوچی ,لہندی جگداسی وغیرہ ہیں۔اہل سندھ نے اس بالائی علاقے کی زبانوں کے لیے سرائیکی کا لفظ استعمال کیا ہے۔جہاں تک وادی سندھ میں میانوالی کا تعلق ہے اس خطے کی زبان کو بھی کئی نام دیۓ گۓ۔ملکی,ملتانی,جٹکی,تھلی,لہندی ,ہندکی اور ہندکو قابل ذکر ہیں۔میانوالی کی پرانی نسل یہاں کی زبان کو آج بھی ہندکو کہتی ہے البتہ پڑھی لکھی نئی نسل میں سرائیکی کا نام مقبول ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسے سرائیکی کا نام کیوں دیا گیا ہے۔یہ نام اسے اہل سندھ نے دیا ہے۔سندھی میں سرو کے معنی سر یا سرے کے ہیں یہ لفظ شمال( ابھے) کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دریاۓ سندھ کے بالائی حصے کو سرو کہتے ہیں چنانچہ اس مفہوم میں دریاۓ سندھ کے منبع تک کا علاقہ سرو اور اس علاقے کی زبان سرائیکی ہے۔ڈاکٹر ٹرمپ سرائیکی کو سندھی زبان کی جدید اور خالص ترین شکل قرار دیتے ہیں۔ڈاکٹر مہر عبدالحق لکھتے ہیں کہ سندھ کی لسانی تاریخ میی 1100 کا سال بہت اہم ہے۔وادی سندھ اس سال سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔دونوں حصوں میں ایک ہی زبان پرورش پانے لگی اور ایک حصے کی زبان سرائیکی کہلائی۔
مختلف زبانوں کے اثرات کے باوجود میانوالی زبان کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے اور یہ لہجہ اسکی مخصوص شناخت ہے۔بلاشبہ یہ سرائیکی ہے اور اظہار کے حوالے سرائیکی کا کھڑا لہجہ ہے۔میانوالی زبان کی گرائمر,افعال اور افعال کی گردانیں,حروف,ضمائر اور اسما ,محاورے ,لوک روایات ,لوک گیت اور پانچ مخصوص آوازیں یعنی ٻ ,ڄ, ݙ, ڳ,ݨ وہی ہیں جو سرائیکی کی مخصوص شناخت ,خصوصیت اور تشخص کا اظہار کرتی ہیں۔لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی زبانوں کے مطالعہ کے شعبہ کے سربراہ پرفیسر ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل نے 1974 میں سرائیکی علاقہ کی زبان کا مطالعہ کرنے کے بعد ,,دی سرائیکی لینگوئج آف سنٹرل پاکستان کے نام سے تحقیقی مقالہ لکھا۔اس میں انہوں نے میانوالی کی زبان کو سرائیکی قرار دیا ہے۔میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان کی زبان کو قریبی مشابہت کی بنا پر ایک ہی ذیل میں رکھتے ہوۓ اسے سرائیکی کا شمالی لہجہ کہا ہے۔ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کا خیال ہے کہ یہ شمالی لہجہ سرائیکی زبان کے وسطی لہجہ کے زیادہ قریب ہے۔وہ ملتان اور مظفر گڑھ کی زبان کو سرائیکی کا وسطی لہجہ قرار دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
پروفیسر سلیم احسن صاحب کا یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی نیازی کی کتاب ,, تاریخ میانوالی ,, سے دونوں فاضل حضرات کے شکریے کے ساتھ لیا گیا ہے ۔
میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس
https://sammar12.blogspot.com
#blogger #blogging #famousblogger #top10blogger
#Pakistaniblogger #Urdublogger #bestcontent
#punjab
#mianwalians #Famous
www.mianwali.com.pk
#میانوالی_ہوم_ٹاؤن
#ملک_ثمر_عباس
#MalikSammarAbbas
#MianwaliHomeTown
#MianwaliCity
#MianwaliNews
#MianwaliUpdate
#Mianwali
#MianwaliSocialMedia
#SocialMediaactivist
#Website #YouTuber
#trending2020
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں