**پروفیسر منور علی ملک: میانوالی کا وہ عظیم ادیب جس نے قلم سے تاریخ رقم کی**
**تحریر: ملک ثمر عباس**
میانوالی کی دھرتی نے جن ہستیوں کو جنم دیا ہے، پروفیسر منور علی ملک ان میں سب سے نمایاں نام ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں دریائے سندھ کی لہریں صدیوں سے تہذیبی داستانیں بیان کرتی ہیں، جہاں کے کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں زندگی کا نغمہ گاتی ہیں، اور جہاں کے لوگوں کے دلوں میں محبت کے چراغ روشن ہیں۔ ایسی سرزمین پر پروان چڑھنے والے منور علی ملک نے نہ صرف سرائیکی اور اردو ادب کو نئی بلندیوں پر پہنچایا بلکہ اپنے قلم سے ایسے گیت تخلیق کیے جو آج بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔
### **ابتدائی زندگی: علم کی روشنی سے سفر کا آغاز**
منور علی ملک کی زندگی کا پہلا باب داؤد خیل کے اس گھر میں لکھا گیا جہاں کتابیں دیواروں کی زینت تھیں۔ ان کے والد، ایک ہیڈ ماسٹر، نے گھر کو علم کی روشنی سے منور کیا تھا۔ عیسیٰ خیل کی گلیاں جہاں بچوں کے قدموں کی چاپ سے گونجتی تھیں، منور کے لیے پہلا اسکول ثابت ہوئیں۔ یہیں سے انہوں نے سرائیکی محاوروں، کہاوتوں اور لوک داستانوں کو اپنے دل میں اتار لیا۔ گورڈن کالج راولپنڈی تک کے سفر نے ان کے ذہن کو کشادہ کیا، اور جب وہ ایم اے انگلش کی ڈگری لے کر میانوالی لوٹے تو ایک ایسا ہیرا تیار ہو چکا تھا جس نے آنے والے وقتوں میں سرائیکی ثقافت کو جگمگا دیا۔
### **تدریسی خدمات: الفاظ کے ذریعے ذہنوں کو روشن کرنا**
کالج کے لیکچرر کے طور پر انہوں نے نسل در نسل طلبہ کو نہ صرف انگریزی پڑھائی بلکہ زندگی کے سبق سکھائے۔ ان کی کلاسز صرف کتابوں تک محدود نہیں تھیں—وہ شیکسپیئر کی رومیو اینڈ جولیٹ پڑھاتے ہوئے سرائیکی محبت کے قصے سناتے، اور ورڈزورتھ کی نظموں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے کنارے لکھی گئی سرائیکی غزلیں پڑھتے۔ ان کے شاگرد آج بھی یاد کرتے ہیں کہ کیسے وہ الفاظ کو ایسے بولتے جیسے موتی پرو رہے ہوں۔
### **ادبی کام: جب لفظوں نے موسیقی بنائی**
منور علی ملک کی شاعری میں میانوالی کی مٹی کی خوشبو بسی ہے۔ ان کے اشعار پڑھتے ہوئے آپ کو لگتا ہے جیسے کوئی آپ کے کان میں سرگوشی کر رہا ہو:
*"تیرے بغیر زندگی اک ادھوری کہانی اے،*
*جیویں دریائے سندھ دا پاݨی بے روانی اے۔"*
انہوں نے سرائیکی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی، لیکن ان کا اصل کمال وہ گیت ہیں جو انہوں نے لکھے۔ ان کے لکھے ہوئے بول آج بھی ہر شادی بیاہ، میلے اور محفل میں گونجتے ہیں۔
### **صحافتی خدمات: طنز و مزاح کی چھری سے معاشرتی زنگ اتارنا**
"پاکستان ٹائمز" اور "دی نیشن" میں لکھے گئے ان کے مزاحیہ کالموں نے پڑھنے والوں کو ہنسایا بھی اور سوچنے پر مجبور بھی کیا۔ ان کا ایک مشہور کالم جس میں انہوں نے میانوالی کے ایک سیاسی رہنما کو "ڈھول دی پول" قرار دیا تھا، آج بھی مقامی حلقوں میں یاد کیا جاتا ہے۔
### **نوجوان نسل کے لیے پیغام: اپنی ثقافت سے پیار کرو**
آج کی نسل ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اپنی ثقافتی وراثت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ منور علی ملک جیسے لوگوں کی زندگیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری پہچان ہماری زبان، ہمارے گیت اور ہمارے ادیبوں میں ہے۔ میانوالی کے نوجوانو! اپنے اس ہیرو کو پڑھو، ان کی تحریروں سے سیکھو، اور سمجھو کہ اصل کامیابی اپنی دھرتی سے پیار کرنے میں ہے۔
**آخری بات: ایک ایسا روشن ستارہ جو آج بھی ہماری راہیں منور کر رہا ہے**
الحمدللہ، **پروفیسر منور علی ملک** آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں، اپنی شاعری، اپنے علم اور اپنی رہنمائی سے ہمیں فیض یاب کر رہے ہیں۔ اللہ پاک ان کو مزید لمبی عمر، صحت اور تندرستی عطا فرمائے (آمین)۔ ان کا وجود ہمارے لیے ایک نعمت ہے، اور ان کا فن ہماری ثقافت کا ایک بیش قیمت خزانہ۔
جس طرح دریائے سندھ کی لہریں کبھی تھمتی نہیں، اسی طرح **منور علی ملک صاحب** کا قلم اور ان کی دانش آج بھی ہماری ادبی روایت کو سیراب کر رہی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے درمیان ایسی عظیم شخصیت موجود ہے جو نئی نسل کو علم و ادب کی راہ دکھا رہی ہے۔
**#پروفیسر_منور_علی_ملک #زندہ_ادبی_روایت #میانوالی_کا_فخر**
**#Professor_Munir_Ali_Malik #Living_Legend #Pride_of_Mianwali**
![]() |
| Professor munawar Ali Malik |
.jpg)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں