نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

" فقط ! 100 سخی درکار ہیں !"

" فقط !  100 سخی درکار ہیں !" الحمداللہ  ہم سب پر پروردگار کی بےشمار مہربانیاں ہیں۔۔ تقریبا پچھلے ایک سال سے میں اپنی اوقات کے مطابق میانوالی کے حق دار اور ہونہار طالب علموں کی مالی مدد کر رہا ہوں، الحمداللہ۔۔ لیکن اس کے باوجود بےشمار بیٹے اور بیٹیاں ایسے بھی آئے ہیں جو بی ایس کر رہے ہیں جو ایم ایس سی کر رہے ہیں اور جن سے ہمیں نادم ہو کر معذرت کرنا پڑی۔۔ بلاشبہ میانوالی ایسے ہزاروں بیٹوں اور بیٹیوں سے مالامال ہے جو بلا کے ذہین ہیں اور صرف غریب ہونے کی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم رہ جاتے ہیں۔۔ پورے میانوالی سے ایسے 100 بیٹے اور بیٹیاں درکار ہیں جنھیں اللہ عزوجل نے خوب نوازا ہوا ہے۔۔ اگر ہم 100 لوگ سالانہ ایک لاکھ روپے ہی جمع کراتے رہیں تو ایک کروڑ روپے کا فنڈ جمع ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ پھر کوئی بیٹا بیٹی ایسا نہیں رہے گا، جو فیس نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کا زیور نہ پہن سکے۔۔ اس فنڈ کو میانوالی ایجوکیشن فنڈ کا نام دیا جائے گا، باقاعدہ رجسٹرڈ کروایا جائے گا اور اس کی ایسی گورننگ باڈی منتخب کی جائے گی جو غیرمتنازعہ، ایماندار، تعلیم دوست لوگوں پر مشتمل ہو گی اور وہ لوگ انھی 100...

میانوالی جہاں بیٹے قتل ہونے کے لیے جوان کیے جاتے ہیں

سلگتے المیے ...... رِستے زخم  میانوالی جہاں بیٹے قتل ہونے کے لیے جوان کیے جاتے ہیں .... زمین کے تنازعے , رشتے کے لین دین ,گھریلو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں, گالی گلوچ کے پر قتل ..... وہ جھگڑے جس پر پوری دنیا میں ایک سوری یا دو بزرگ پانچ منٹ میں مسلہ حل کرادیتے ہیں .... یہاں پر قتل کر دیا جاتا ہے.... آخر حاصل کیا ھوا..... سوشل میڈیا اور عام زندگی میں مختلف شہروں کے افراد جنہیں جب بھی اپنے علاقہ کا نام بتایا..... انہوں نے استغفار پڑھا جیسے ہم کوئی ماقوف الفطرت مخلوق ہوں..... کئی لوگوں سے بات ہوتی ہے جن کا ایک ہی نکتہ ہوتا ہے .....  کہ میانوالی جنگل سے بدتر  ہے......  جہاں زرا سی اونچی آواز پر قتل کر دیا جانا معمول ہے....  ان لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے.....  اگر کبھی تھا بھی تو اب نہیں ہے......  انہیں بتاتا ہوں کہ شعور سفر کر رہا ہے.......  قانون کام کرنے لگا ہے......  انہیں باقاعدہ دعوت دیتا ہوں کہ تم لوگ آؤ خود اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ میرے لوگ ابنارمل نہیں.... ہم لوگ جنگلی نہیں ہیں...... پھر کوئی ناں کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے ک...

" کھوتا ریڑھی ! سبزیاں ! صدائیں !"

" کھوتا ریڑھی !   سبزیاں !   صدائیں !" موسی جب بھی اپنے محلے میں جایا کرتا تھا تو اسے اکثر بڑوں سے عموما ایسی باتیں سننے کو ملا کرتی تھیں۔۔ اپنے والد سے کہیں ! وہ تمھیں کھوتا ریڑھی لے دیں.. تاکہ تم سبزیوں سے بھری ریڑھی لے کر گاؤں گاؤں صدائیں لگاتے پھرو ! بھنڈی لے لو، ٹماٹر لے لو، توری لے لو، کدو لے لو ! تب وہ میٹرک میں فیل ہونے کے بعد سارا سارا دن گلیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا اور اس کے والدین بھی کچھ حادثات کی وجہ سے امیر سے غریب ہو چکے تھے۔۔ ان کی زمینیں بک چکی تھیں۔۔ اس کے وہی ماں باپ جب امیر تھے، تب سمجھدار جانے جاتے تھے اور جب غریب ہوئے تھے تو بیوقوفوں میں شمار کیے جانے لگے تھے۔۔ موسی کو سبزیاں اگانے سے، کھوتا ریڑھی پر سبزیاں بیچنے سے، گاوں گاوں صدائیں لگانے سے، کوئی تکلیف نہ تھی اور نہ ہی اسے مزدوری کرنے میں کبھی کوئی عار محسوس ہوئی تھی۔۔ اسے تو بس ان نصیحتوں میں چھپے طنز کے تیر گھائل کرتے جاتے تھے جو اس کے عظیم ماں باپ کی غربت، مجبوری کو ڈھال بنا کر اس کے سینے پر بار بار برسائے جاتے تھے۔۔ شاید ! اللہ ...

" اے غربت ! تیکوں کی آکھاں !"

" اے غربت !  تیکوں کی آکھاں !" بچپن سے لے کر آج تک میانوالی گردونواح میں شادیوں پر یہ دوہڑا بار بار سنتے آ رہے ہیں .. اے غربت تیکوں کی آکھاں, میڈے لکھاں جئے یار ونجائے نی !.... یہ دوہڑا دینے والا اور سننے والے سب عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں اور کئی مجبور لوگوں کی تو آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں.. لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم غربت کے بھوت کو کام نہ کر کے, مزدوری نہ کر کے, دشمنیوں کی دلدل میں دھنس کر, خود ہی خوب پالتے پوستے رہتے ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً اپنے خوشحال دوستوں کو اپنے آپ سے دور ہوتا دیکھ کر یہ دوہڑا گنگنا کر یا یہ دوہڑا سن کر اپنی غریبی کو رو رو کر خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں.. اگر ایک بندہ سارا سارا دن ایک ہوٹل پر بیکار بیٹھ بیٹھ کر دن گزار سکتا ہے تو وہ سارا دن ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر اپنے لیے, خاندان کے لیے, پکوڑے, سبزی, فروٹ, چائے بھی تو بیچ سکتا ہے.. اگر ایک بندہ سارا سارا دن کسی سیاسی کے ساتھ, کسی گدی نشین کے ساتھ, رضاکارانہ طور پر گھوم پھر سکتا ہے تو اپنے لیے, اپنے خاندان کے لیے, وہ سارا دن گھوم گھوم کر کری...

" موساز کارواں، آج پکی شاہمرداں !"

" موساز کارواں،  آج پکی شاہمرداں !" الحمدللہ ! سردیوں کی چھٹیوں کے بعد آج گورنمنٹ ہائی سکول پکی شاہمردان میں، پاکستان کے اجلے چہرے دیکھنے کا موقع ملا۔۔ یہ وہی گورنمنٹ سکول ہے، جہاں سے مرحوم سید عطا محمد شاہ صاحب ریٹائر ہوئے تھے اور پھر انھوں نے اپنے ایک پرائیویٹ ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔۔ گورنمنٹ ہائی سکول پکی شاہمردان اب تک مندرجہ ذیل امتیازی سرٹیفیکیٹس حاصل کر چکا ہے، جو جناب ہیڈماسٹر جاوید اقبال ملک صاحب اور انکی ٹیم کی لگن اور خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔ 1- ڈسٹرکٹ سٹار ہائی سکول۔۔ 2- ڈسٹرکٹ سٹار ہیڈ ماسٹر(جاوید اقبال ملک صاحب)۔۔ 3- ڈسٹرکٹ سٹار ٹیچر(غلام عباس رجائی صاحب)۔۔ 4- ڈسٹرکٹ بیسٹ پرفارمر سکول۔۔ 5- ساڑھے بارہ سو(1250) سٹوڈینٹس۔۔ سارے اساتذہ کرام کو خوب خراج تحسین پیش کرنے کے بعد اپنے مستقبل کے معماروں تک موساز کا پیغام پہنچایا اور انھیں اپنے ماں باپ، اساتذہ کرام اور ملک و قوم کے لیے باعث فخر بننے کی دعائیں دیں۔۔ اپنی قوم کے ان معصوم بچوں تک مرحوم سید عطا محمد شاہ صاحب کی وہ امانت پہنچائی، جو انھوں نے مجھے 23 سال پہلے اللہ عزو...

عزت کے لیے, رزق کے لیے, خدمت کے لیے

" عزت کے لیے, رزق کے لیے, خدمت کے لیے !" ہر بندہ اپنی زندگی میں خوب تگ و دو کرتا ہے کہ اس فانی زندگی میں اس کی خوب عزت ہو.. اس کے مالی حالات بہتر ہوں.. اور وہ اپنے مال و اسباب و وسائل کی وجہ سے دوسروں کے لیے مفید بھی ہو.. یہی سوچ کر میں نے بھی اپنی ناقص عقل اور محدود فہم کے مطابق دنیا کے بہترین اور مقدس شعبے میں قدم رکھ دیا ہے تاکہ اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے انہی مندرجہ بالا تینوں بیش بہا خوبیوں کو پا لیا جائے, ان شاءاللہ.. ہماری کوشش ہوگی کہ ہمارے ادارے سے محض عالم, ڈاکٹرز, انجینئرز, پروفیسرز, وکیل, جج, بزنس مین, آفیسرز, وغیرہ ہی پیدا نہ ہوں بلکہ اللہ عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حقیقی غلام پیدا ہوں.. اپنے والدین کے مرید پیدا ہوں.. اپنے اساتذہ کے سفیر پیدا ہوں.. اپنے ملک کے حقیقی بیٹے, بیٹیاں پیدا ہوں.. اور جنھیں دیکھ کر ہر آنکھ میں چمک پیدا ہو جائے.. ہر لب پہ مسکراہٹ پھیل جائے.., ان شاءاللہ.. باقی ایک عام انسان ہونے کے ناطے ارادہ کیا ہے کہ موساز کارواں معمول کے مطابق رواں دواں رہے گا, ان شاءاللہ.. اور موساز کے پل...

ان یتیموں کی مدد کریں

*السلام علیکم* پلیز ان یتیموں کی مدد کریں یہ آپ کی مدد کے منتظر ہیں *محمد اسماعیل اور اُس کی پانچ بہینیں کسی مسیحا کی منتظر هیں* محمد اسماعیل کا والد مرحوم محمد یسین آف دلیلی والا اپنے بچوں کو چھوڑ کر اس دُنیا فانی سے رخصت ہو گیا محمد یسین 13Dec 2019 کو ہارٹ اٹیک کے باعث فوت ہوا اور اس کے پانچ بچے اکیلے رہ گئے هیں ان بچوں کا خدا کے سوا کوئی والی وارث نہیں تمام درد دل رکھنے والے مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ الله پاک کی رضا کی خاطر ان کی کچھ مدد کریں اللہ آپ لوگوں کی مدد کرے گا contact = 03046345210 میانوالی سوشل میڈیاٹیم ملک ثمرعباس